تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| ہر سال فلک پر محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی کائنات کا ذرہ ذرہ محسن انسانیت حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شہادت پر سوگوار ہو جاتا ہے، پوری دنیا میں بلا تفریق مذہب و ملت اور بلا تفریق رنگ و نسل ہر آزاد فکر اور غیرت مند انسان اپنے محسن اعظم امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔
وطن عزیز ہندوستان میں بھی نہ صرف شیعہ بلکہ برادران اہل سنت بلکہ برادران اہل ہنود بھی امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا حُسن ہی یہ ہے کہ یہاں بلا تفریق ادیان و مذاہب لوگ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کرتے ہیں، مجالس عزا کا انعقاد کرتے ہیں، عزاداری کے جلوس نکالتے ہیں۔
ہندوستان میں شیعہ اقلیت در اقلیت ہونے کے باوجود ہر سال امام حسین علیہ السلام کی عزاداری بڑی شان و شوکت سے ہوتی ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس میں دیگر ادیان و مذاہب کے غیور اور آزاد فکر افراد شریک ہوتے ہیں اور بھرپور تعاون کرتے ہیں بلکہ بعض مقامات پر عزاداری کے بانی ہونے کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
لیکن دوسری جانب انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری پر جس قدر اعتراض خود نام نہاد مسلمانوں کو ہے اتنا کسی اور کو نہیں ہے۔
ذیل میں بطور دلیل دو اعتراضات نقل کئے جا رہے ہیں۔
1. محرم الحرام میں منعقد ہونے والے جلسات و کانفرنسز پر معترض نے اعتراض کرتے ہوئے تحریر کیا: کیا یہ تقریریں اور علماء کے خطابات، جمعہ کے خطبوں میں نہیں ہو سکتے، جس قدر لمبی لمبی تقریریں دو دو تین تین گھنٹے ہوتی ہیں اس کا مختصر اور ضروری باتیں جمعہ اور دیگر نمازوں میں حاصل نہیں کیا جا سکتا؟
ملاحظہ فرمائیں معترض نے کتنی ہوشیاری سے لوگوں کو وقت کی اہمیت بتانے کی کوشش کی ہے تاکہ ان شہیدان کربلا کی یاد کو ختم کیا جائے جنہوں نے اسلام اور انسانی اقدار کے لئے اپنی جانیں قربان کی ہیں، اگر موصوف فلسفہ جمعہ و جماعت پر توجہ کر لیتے کہ انسان روزانہ کی پنجگانہ نماز فرادی پڑھ سکتا ہے لیکن جماعت کی تاکید اس لئے ہے تاکہ محلے کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوں تاکہ جہاں اللہ کے حق کی ادائیگی ہو وہیں مخلوق کے حق سے غفلت نہ ہو سکے۔ اسی طرح جمعہ کا فلسفہ یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک دن پورے شہر کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوں، ایک دوسرے سے ملاقات کریں، ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوں، علاقے اور دنیا کے مسائل سے بے خبر نہ رہیں۔
ظاہر ہے یہ حکم اس وقت آیا تھا جب نہ ٹیلی فون تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ آج تو ماڈرن ٹیکنالوجی موجود ہے تو آج کیوں جمعہ و جماعت پر توجہ دی جائے؟ دور حاضر میں ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے سبب جمع ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ اسرائیل کے بنائے ایسے ایپس موجود ہیں جن سے آپ لوگوں سے ہفتہ میں ایک دن کیا بلکہ روزانہ رابطہ کر سکتے ہیں۔ صرف ایک محلے اور شہر کے لوگ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگ آن لائن حاضر ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہماری اس تجویز پر سارے مسلمان اعتراض کریں گے کہ یہ جمعہ و جماعت حکم خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور اس کے بعد صحابہ اور تابعین نے اس پر عمل کیا ہے آپ اس کو ختم نہیں کر سکتے۔
بے شک نماز جمعہ اور دیگر جماعت و خطبات سے سال بھر علاقہ کے مسلمانوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے، تبلیغ و ہدایت کے کام انجام پا سکتے ہیں۔ لیکن مسجد میں ہر انسان نہیں جا سکتا بلکہ مسلمان بھی جمعۃ الوداع اور عید و بقر عید کے علاوہ کتنی تعداد میں حاضر ہوتے ہیں یہ سب پر عیاں ہے۔
لہذا ضرورت ہے کہ جس طرح سال میں ایک بار پوری دنیا کے مسلمان حرم الہی مکہ مکرمہ، میدان عرفات، میدان مزدلفہ اور میدان منا میں جمع ہوں تاکہ عبادت خدا کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے حالات سے واقف بھی ہوں، اسی طرح ضروری ہے کہ محرم الحرام میں شہدائے کربلا کے نام پر مجالس عزا، جلسات اور کانفرنسز منعقد ہوں تاکہ بلا تفریق مذہب و ملت لوگ جمع ہوں اور ان کے سامنے اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کی جائے اور دنیا کے حالات پر غور و فکر کیا جا سکے۔
میرا مقصد کسی پر طنز نہیں لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ جو لوگ شہیدان کربلا کے نام پر منعقد ہونے والے سالانہ اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں وہ آج دنیا کے مظلوموں اور کمزوروں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں لیکن اسی کے برخلاف جو شہدائے کربلا کی یاد کے مخالف ہیں عالمی استعمار کے سامنے ان کا بزدلانہ اور مجرمانہ سکوت سب پر عیاں ہے، اگر کسی نے بڑی ہمت کر کے کچھ بولنا بھی چاہا تو صرف اخبارات کے صفحات ہی سیاہ کئے یا پھر سوشل میڈیا پر سرکس کے شیر جیسا ڈرامہ کر کے مطمئن ہو کر بیٹھ گئے، اور اپنے زعم ناقص میں خوش ہو گئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے۔
ان معترضین پر اعتراض ہے کہ اب تک تم نے فلسطین کے لئے کیا کیا؟ یمن میں بھکمری ہے تم نے کیا کیا؟ سعودی عرب میں اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہوئے غیر اسلامی گمراہ کن رسمیں ایجاد ہو رہی ہیں تم نے کیا کیا؟
2. ایک دوسرا اعتراض سوشل میڈیا پر نظر آیا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
شیعوں کو محرم کے 10 دن کسی صحرا میں خیمہ لگا کر چھوڑ دیا جائے اور آخری دو دن پانی بند کر دیا جائے وہیں!!! پر یہ مجلسیں کریں تاکہ ان کو واقعہ کربلا کی اہمیت کا اندازہ ہو ٹھنڈی سبیلیں پیتے اور ڈکار مارتے ہیں اور محبت اہل بیت کا دعوی کرتے ہیں۔
واقعہ کربلا ذاکروں کے لئے ATM کارڈ بن گیا ہے۔
اللہ اکبر! ابھی بھی یزیدی فکر اور اموی سوچ والے موجود ہیں۔
ایسے ہی افکار والے اللہ کی عظیم عبادت حج بیت اللہ پر بھی اعتراض کرتے ہیں، آخر اتنا خرچ کر کے حج پر کیوں جایا جائے؟ حج پر اتنے جانور کیوں ذبح کئے جائیں؟ وغیرہ۔
بات یہ نہیں کہ شیعہ صرف ٹھنڈی سبیلوں کی سہولت ملنے پر ہی عزاداری کرتے ہیں، اب آپ کی عدم معرفت پر ماتم کرنے کی شدید ضرورت ہے، سعودی عرب میں جہاں آل سعود نے شراب و شباب کی محفلیں تو سجانے کی اجازت دے دی لیکن مظلوم کربلا کی عزاداری پر آج بھی پابندی ہے تو کیا وہاں عزاداری نہیں ہوتی، وہاں بھی عزاداری ہو رہی ہے، دہشت گرد طالبان نے افغانستان میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری پر پابندی لگا دی تو کیا وہاں عزاداری نہیں ہو رہی ہے وہاں بھی عزاداری ہو رہی ہے، پاکستان کے ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ وغیرہ میں دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ عزاداروں پر حملہ آور ہو جائیں الحمدللہ وہاں بھی امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ہو رہی ہے۔
کرونا میں بھی عزاداری نہیں رکی، یہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کی عزاداری ہے اسے آپ مٹا نہ پائیں گے، جب یزید، بنی امیہ و بنی عباس کے ظالم حکام عزاداری کو نہ ختم کر سکے، جب ظالم مغلیہ بادشاہ نام حسین (علیہ السلام) نہ مٹا سکے، جب قذافی و صدام جیسے ظالم و جابر عزاداری نہ روک سکے تو کوئی اور کیا روک پائے گا۔
یہ شہادت ہے شہادت، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد ہے۔ آپ کو حضور کا فرمان ہی یاد نہیں "بے شک! قتل حسین سے مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوگی جو کبھی سرد نہیں ہو گی۔" اس فرمان پیغمبر کے بعد معترض کو اپنے ایمان کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں اس کے دل میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے کوئی بے چینی نہیں؟
امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے دختر نیک اختر یعنی امام حسین علیہ السلام کی خواہر گرامی حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے دربار یزید میں یزید کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: خدا کی قسم! تم ہمارے ذکر کو ختم نہیں کر سکتے۔
جہاں تک بات ATM کارڈ کی ہے تو یہ صرف محرم کے اجتماع سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ماہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ماہرین کو بھی یہ موقع ملتا ہے، اجتماعات کی تقریریں تو سمجھ میں آ بھی جاتی ہے لیکن تیز رفتار قرائت خود قاری کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے۔
آخر میں مشورہ ہے کہ اعتراضات کے بجائے صلح و آشتی سے کام لیا جائے اور سوچا جائے کہ آخر کیا کرنا چاہیے، قبلہ اول بیت المقدس کی بے حرمتی اور فلسطینیوں کی مظلومیت پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، اسی طرح جہاں کہیں بھی جس شکل اور انداز میں ظلم ہو رہا ہے اس کے خلاف ضرور آواز بلند کرنی چاہیے۔
الحمدللہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں امام حسین علیہ السلام کی محبت جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے اور امام حسین علیہ السلام کی محبت اور ان کے تذکرے نے ہمیں مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت کا درس دیا ہے۔
لہ الحمد و لہ الشکر